Khanqah-e-Qadria Ilmia

Spreading the knowledge of Sufism, since more than 100 years. Three different lines (Shajrah) from Qadria and Chishtia order.

بانی: حضرت مولانا الشاہ محمد غلام رسول القادری

خانقاہِ قادریہ علمیہ

            کراچی میں جب بھی روحانی سلاسل کی خانقاہوں کا ذِکر کیا جائے تو ”خانقاہِ قادریہ علمیہ” کا نام سرفہرست ہوگا۔ خانقاہِ قادریہ کے بانی کراچی کے معروف عالم دین و صوفی بزرگ حضرت مولانا الحاج الحافظ القاری الشاہ محمد غلام رسول القادری ہیں۔ جنہوںنے قیامِ پاکستان سے قبل طالبانِ خدا کی رہبری اور روحانی و معاشرتی تعلیم و تربیت کی خاطر سلسلہء قادریہ کی تعلیمات و اصولوں پر اس عظیم خانقاہ کی بنیاد رکھی اور قادری مسجد (جس کی بنیاد کا سہرا بھی آپ ہی کے سر ہے) کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ خانقاہِ قادریہ میں حلقہء ذکر اﷲ اور تصوف کی نشر و اشاعت کا مستقل سلسلہ جاری فرمایا۔ جس سے بے شمار خواتین و حضرات نے اپنی روحانی پیاس بجھائی اور اب تک اس خداداد چشمہء فیضان سے سیراب ہورہے ہیں اور انشاء اﷲ ہوتے رہیں گے۔

 

:”خانقاہِ قادریہ” کے معمولاتِ حسنہ

            حضرت مولانا حافظ قاری الشاہ محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ کا یہ معمول تھا کہ آپ روزانہ بعد نمازِ عصر مسجد میں رونق افروز ہوتے تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت کے بعد تا وقت ِ مغرب آپ رشد و ہدایت میں مشغول رہتے تھے آپ کا بیان قرآن و حدیث اور اکابرین اولیا اللہ کے ارشادات و تعلیمات کی روشنی میں ہوتا تھا۔ اختتامِ مجلس پر نیاز کی تقسیم اور دعا و قل فاتحہ ہوتی تھی ۔ آپ کے بعد آپ کے فرزند صاحب ِسجادہ شیخ طریقت حضرت مولانا صاحبزادہ محمد علم الدین القادری علمی کا بھی یہی معمول رہا۔ یعنی بعد عصر آپ خصوصی طور سے فاتحہ خوانی اور ذِکر اذکار، نعت شریفہ اور منقبت خوانی فرماتے اور پھر سب کے لئے دعائے خیر ہوتی تھی۔ چنانچہ اب بھی یعنی حضرت مولانا غلام رسول القادری کے پوتے حضرت صاحبزادہ محمد علم الدین القادری کے فرزند اصغر (خانقاہِ قادریہ علمیہ کے موجودہ سجادہ نشین) ڈاکٹر صاحبزادہ فرید الدین قادری کے دور میں بھی خواتین و حضرات سے ملاقات کا وقت بعد نماز عصر ہی ہے اور مغرب سے پہلے روزانہ ذِکر اذکار کے بعد ہر حاضر و غائب کیلئے دعائے خیر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں خواتین و حضرات اپنے روحانی و معاشرتی مسائل کے سلسلے میں مشورہ اور دعا کے لئے حاضر ہوتے ہیں جن کی دینی و دنیاوی رہنمائی محض اللہ کے بھروسہ پر کسی دعویٰ کے بغیر بزرگوں کے معمولِ حسنہ کے مطابق بلاغرض و معاوضہ کی جاتی ہے۔

روزانہ کی عام نشست کے علاوہ ہر جمعرات بعد نماز مغرب خانقاہِ قادریہ علمیہ کے معمولِ دیرینہ کے مطابق ”حلقہ ذِکر اللہ قادریہ غوثیہ” ہوتا ہے اور یہ معمول بھی قیامِ پاکستان سے قبل کا ہے اور اب تک سالہا سال سے ِللہ فی اللہ جاری و ساری ہے۔ یہ حلقہ ذِکر اللہ اپنی نوعیت کا ایک نہایت منفرد حلقہ ہے جو استغفار، ذِکرِ نفی اثبات، ذکر اسم ذات اور مختلف اوراد و وظائف پر مشتمل ہے جس میں نعت شریفہ اور غوث الاعظم کی منقبت خوانی بھی شامل ہے۔

 

:شب گیارہویں شریف

            ہر چاند کی دس تاریخ یعنی گیارہویں شب میں بعد نمازِ مغرب تا عشاء خصوصی حلقہ ”ذِکر اللہ” ہوتا ہے جس میں جمعرات کے حلقہ شریف کے علاوہ چند اضافی اوراد و تسابیح شامل ہوتی ہیں نیز ”قصیدۂ غوثیة الخمریہ” اور خانقاہِ قادریہ علمیہ کا منظوم اردو شجرہ مبارکہ بھی بطور توسل و برکت کے پڑھا جاتا ہے۔

 

:محفل سترہویں

            ہرچاند کی سترہ تاریخ کو بعد نماز عشا خصوصی مجلس ہوتی ہے اس مجلس کو ”سترہویں” کا نام مختلف اعتبار سے دیا گیا ہے۔ اس محفل میں ”شہدائے بدر” رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فاتحہ ہوتی ہے کیونکہ رمضان کی سترہ تاریخ کو ”واقعہ بدر” پیش آیا تھا۔ علاوہ ازیں سترہ تاریخ کی یہ محفل حضور سید عبدالقادر جیلانی کی فاتحہ کے لئے بھی ہے کیونکہ آپ کی وفات مختلف تاریخوں میں ”سترہ” تاریخ کی روایت بھی ہے۔ علاوہ ازیں سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوبِ الٰہی کی فاتحہ خوانی بھی شامل ہے کیونکہ آپ کے یومِ وصال کی تاریخ ”سترہ” مشہور و معروف ہے۔ اب اس محفل سترہویں میں خود حضرت مولانا غلام رسول القادری اور حضرت مولانا صاحبزادہ علم الدین القادری علمی کی فاتحہ بھی شامل ہوتی ہے کیونکہ حضرت غلام رسول القادری کا وصال جمادی الاول کے چاند کی اٹھارہ تاریخ کو ہوا اس طرح سترہویں شریف آپ کے یومِ وصال کی شب کہلاتی ہے۔

 

درس

ہر اسلامی مہینہ کا پہلا اتوار بعد نمازِ ظہر فقہی مسائل کا درس ہوتا ہے۔

 

:سالانہ محافل

            ”خانقاہِ قادریہ علمیہ” میں روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ محافل کے علاوہ سالانہ طور پر بھی محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔ مثلاً عید میلاد النبی ۖ، سالانہ محفل گیارہویں، سالانہ عرس، معراج النبی ۖ ، شب ِ برأت اور شب ِ قدر کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔

 

:مجالس عشرہ محرم

            خاندان علمیہ قادریہ کے مورثِ اعلی حضرت مولانا منشی محمد بشیر القادری کے دور یعنی تقریبا ایک صدی قبل سے محرم کی چاند رات سے یوم عاشورہ اور سوئم و چہلم کے حوالے سے ”قدیمی یادگارِ مجالس شہادتِ حسینی” کا انعقاد بھی ”خانقاہِ قادریہ علمیہ” کی روایت میں سے ہے اور آج تک اہلسنت والجماعت کے عقائد کے مطابق بے غرض و بے لوث طور سے جاری ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ سرزمین کراچی میں قیامِ پاکستان سے قبل ”شہادتِ حسینی ”کے سلسلے کی مجالس کی بنیاد خاندانِ علمیہ قادریہ شاہ غلام رسول القادری کے بزرگوں نے رکھی یعنی حضرت مولانا غلام رسول القادری کے نانا بزرگوار حضرت مولانا محمد بشیر القادری خود ذِکر شہادت بیان کرتے رہے، ان کے داماد محترم حضرت حافظ قاری محمد علم الدین القادری نے یہ خدمت انجام دی، حضرت مولانا غلام رسول القادری کے ماموں حضرت صوفی سائیں عبدالغنی القادری اپنے حلقہ شریف میں عشرہ محرم میں ذِکر شہادت حسینی بیان کرتے رہے پھر یہ خدمت خود بانی خانقاہِ قادریہ حضرت مولانا غلام رسول القادری نے سالہا سال انجام دی۔ انکی زندگی ہی میں ان کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد علم الدین القادری علمی نے ”ذِکرحسینی” کے فرائض سنبھالے اور تاحیات ہر سال ذِکر حسینی کرتے رہے۔ اب موجودہ سجادہ نشین یعنی حضرت مولانا علم الدین القادری علمی کے فرزند اصغر پروفیسر ڈاکٹر علامہ صاحبزادہ فرید الدین قادری ہر سال ”خانقاہ قادریہ علمیہ” قادری مسجد میں اپنے آبا و اجداد کے طرز پر اہلسنت و الجماعت کے عقائد کے مطابق ذکر ”شہادتِ حسینی” کی محافل سے خطاب فرماتے ہیں۔

٭٭٭