Hazrat Sufi Saeen Abdul Ghani Qadri

He was born in 1854 to Munshi Muhammad Bashir Qadri. He was the uncle (mamoo) of Ghulam Rasool. At the age of 13, he became a disciple of Pir Baqa Qadri of Pagara family. In the later years, he then became a disciple of Gul Hasan Shah Qalandar Qadri, a direct descendant of Abdul Qadir Jilani .He died at the age of 84 in 1938.

مولانا غلام رسول قادری کے مرشد، ماموں، خسر

حضرت صوفی سائیں عبدالغنی القادری

(م ١٣٥٧ھ)

پیدائش :

عارف باﷲ صوفی سائیں عبدالغنی القادری القلندری علیہ الرحمہ، ١٨٥٤ء میں صدر کراچی میں اپنے والد محترم مولانا الحاج منشی محمد بشیر صدیقی القادری علیہ الرحمہ کے گھر پیدا ہوئے۔

تعلیم :

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ حاصل کی۔

بیعت :

آپ نے اپنی تیرہ سالہ عمر میں سندھ کے مشہور پگارا خاندان کے صوفی بزرگ حضرت پیر مٹھل شاہ پیر بقا قادری ولد ابوالبقا مظہر الدین راشدی سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔

حضرت پیر بقا قادری کے علاوہ تلاش مرد کامل میں حضرت سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ نے متعدد مقامات کا سفر کیا اور کئی مشائخ و فقرا سے ملاقات کی اور کئی بزرگوں سے آپ نے فیض حاصل کیا۔ جنہوں نے تبرکاً آپ کو بیعت و خلافت سے بھی نوازا۔

آخر میں آپ نے بٹالہ شریف کے ایک بزرگ حضرت پیر سید ظہور الحسن قادری بٹالوی علیہ الرحمہ کے ایما پر پانی پت کے بزرگ حضرت سید گل حسن شاہ قلندر قادری پانی پتی علیہ الرحمہ (مصنف تعلیم غوثیہ) کی خدمت میں حاضری دی جو کہ حضرت سیدنا غوث علی شاہ قلندر، پانی پتی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ تھے۔ آپ نے ان سے بیعت کی اور فیض حاصل کیا۔

دینی خدمات:

سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت سچل سرمست علیہ الرحمہ کی طرح حضرت صوفی سائیں غنی القادری علیہ الرحمہ ہفت زبان شاعر بھی تھے۔ بیک وقت اردو، سندھی، سرائیکی، گجراتی، فارسی، بلوچی اور خاص کر ہندی زبان میں حمدیہ، نعتیہ اور مدحیہ اشعار تحریر فرماتے تھے۔

سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ نے نثر و نظم میں کافی سرمایہ یادگار چھوڑا ہے جن میں سے کچھ شائع ہوچکا ہے اور بڑی تعداد میں اب بھی نظم و نثر غیرمطبوعہ ہے۔

حضرت سائیں غنی القادری علیہ الرحمہ نے بے شمار سندھی کلام کافیاں وغیرہ بھی تحریر فرمائی ہیں۔

سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ نے شاعری میں حمد و نعت، غزل، مثنوی و مسدس کے اشعار بھی تحریر فرمائے۔

آپ کے منظوم کلام میں اردو زبان میں قرآن مجید کی سورہء فاتحہ اور سورہء اخلاص کا ترجمہ بھی ملتا ہے۔

آپ نے ہندی زبان میں ایک منظوم رسالہ ترتیب دیا تھا جس میں ہندی میں اشعار اور اردو ترجمہ شامل ہے۔

حضرت سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضری دینے کیلئے مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذہب مثلاً ہندو، پارسی، سکھ ذات کے افراد بھی آتے تھے۔ آپ نے اپنی مشہور تصنیف ”مثنوی عالم فیض” (١٩١٧ئ) کے دوسرے حصہ کو ہندو سادھوؤں کی تعلیمات کے بیان کیلئے مخصوص فرمایا جس کا عنوان آپ نے ”اہل ہنودان”منتخب فرمایا۔ اس حصہ میں آپ نے ہندو سادھوؤں کیلئے مختلف انداز میں تعلیم فرمائی ہے۔

طالبانِ حق کی راہنمائی اور تعلیم و تربیت کی خاطر سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ نے ”حلقہ ذکر اﷲ” کی بنیاد ڈالی۔ چنانچہ ہر ہفتہ آپ اپنی صحبت میں آنے والوں کو درس رشد و ہدایت سے فیضیاب فرماتے تھے۔

شاعر مشرق مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے بھی حضرت سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ کے پیرومرشد حضرت سید گل حسن شاہ قلندر پانی پتی سے استفادہ کیا تھا اور ان سے دعا لینے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ چونکہ علامہ اقبال اور سائیں عبدالغنی ہم عصر تھے اگرچہ دونوں کی آپس میں ظاہر ملاقات یا خط و کتابت کا حوالہ نہیں ملتا تاہم علامہ اقبال کے نظریات اور فکر و نظر کے اثرات سائیں عبدالغنی کی شاعری اور لٹریچر میں پائے جاتے ہیں۔

سائیں عبدالغنی کی زندگی خلق خدا کی دینی و روحانی نشوونما کیلئے وقف تھی لیکن ساتھ ہی وہ حکمت کے فن سے بھی واقف تھے اور جسمانی علاج حکمت کے نسخوں اور دواؤں کے ذریعے کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ١٩٠٥ء میں ایک ضخیم حصہ خاص حکمت کے اصولوں اور نسخوں کیلئے مخصوص کیا جس میں آپ نے نہ صرف اپنے بلکہ دیگر حکماء کے نسخے بھی شامل اشاعت کئے۔ آپ نے امراض اور ان کے علاج کو اشعار کی صورت عطاکی۔

صوفی سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ نے اپنے مریدین و معتقدین کیلئے اردو میں دعائیں بھی تحریر فرمائی ہیں ان دعاؤں کو آپ ”دعائے حلقہ شریف” کے نام سے تحریر فرماتے تھے اور اپنے حلقہ شریف میں حاضرین کے ہمراہ انہیں پڑھا کرتے تھے۔

حضرت صوفی سائیں عبدالغنی القادری دعلیہ الرحمہ نے منظوم رشد و ہدایت کے علاوہ عام مسلمین اور خصوصاً مریدین کیلئے نثر میں سوال و جواب کے انداز میں بھی بہترین عارفانہ رشد و ہدایت کا اہتمام فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ نے مختلف نوعیت کے شریعت و طریقت سے متعلق سوالات خود ہی ترتیب دیئے ہیں اور پھر خود ہی ان کے جوابات بھی تحریر فرمائے ہیں۔

حضرت صوفی سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ کے والد ماجد حضرت مولانا منشی محمد بشیر القادری علیہ الرحمہ کراچی کے ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت میوا شاہ غازی کے ہم عصر تھے۔ حضرت میوا شاہ کے نام سے کراچی کا سب سے قدیمی قبرستان بھی لیاری دھوبی گھاٹ کے علاقہ میں واقع ہے۔

حضرت صوفی سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ نے اپنی متعدد تصنیفات میں ایک منظوم کتاب ”قصائد دعائے میت” کے عنوان سے بھی تحریر فرمائی جس میں آپ نے خصوصیت سے ایسے کلام تحریر فرمائے جو مسلمان اپنے عزیز و اقارب کی موت پر بغرض ایصال ثواب ، نماز جنازہ کے روز، سوئم و چہلم اور برسی کی فاتحہ کے موقع پر پڑھ سکتے ہیں۔

حضرت صوفی سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ نے مشہور مجموعہ وظائف عربی ”دلائل الخیرات” کی طرز پر عربی میں مشکل پیش آنے کے سبب اردو زبان میں ”اردو دلائل الخیرات مقبول یعنی ہدیہ رسول” کے عنوان سے پورا ہفتہ کیلئے اردو میں صلوٰة و سلام کے اشعار تحریر فرمائے ہیں۔ 

حضرت صوفی سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ نے طالبانِ حق کو شریعت و طریقت کی تعلیمات و رشد و ہدایات کے علاوہ عوام الناس کیلئے اصلاحی اشعار اور نصیحتوں سے بھی فیض پہنچایا ہے۔ آپ نے اپنے حلقہ ذکر اﷲ میں اپنی زبان مبارکہ کے علاوہ لوگوں کی اصلاح اور معاشرے کے بے جا رسم و رواج کے خلاف تصنیفات بھی شائع فرمائیں جن میں آپ نے اپنے قلم کے ذریعے جہاد فرمایا اور معاشرتی خامیوں کی نشاندہی فرماکر ان کی اصلاح فرمائی۔

 حضرت صوفی سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ نے اشعار کی صورت میں بے شمار حمد، نعت و مناقب بزبانِ اردو ہندی، سنسکرت، فارسی، سندھی یادگار چھوڑا ہے۔ علاوہ ازیں نثر میں بھی آپ کی مطبوعہ و غیرمطبوعہ تصنیفات دستیاب ہیں۔

وصال:

حضرت صوفی سائیں عبدالغنی القادری علیہ الرحمہ نے چوراسی سال کی عمر شریفہ میں ١٩٣٨ء مطابق ١٣٥٧ھ کراچی میں وصال فرمایا۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے بھانجے ، داماد، خلیفہ حضرت مولانا حافظ قاری الشاہ محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ نے پڑھائی۔ آپ کا مزار اقدس لیاری قبرستان دھوبی گھاٹ میں واقع ہے۔ آپ نے بے شمار مطبوعہ و غیرمطبوعہ کلام یادگار چھوڑا ہے۔  جو تصنیفات اب تک شائع ہوچکی ہیں ان میں عالمِ فیض، آئینہ قلندری، دائے قصائد میت، اردو دلائل الخیرات، ذخیرہء ہدایت خزینہ ء فراست، پستک برہم گیان اپدیش، عرفانِ غنی (حصہ اوّل و دوئم)، فیضانِ غنی (حصہ اول، دوئم و سوئم)، ہدایت خود شناسی ، ہدایت توحید حق، ہدایت ِ عام اور وشن گنج شامل ہیں۔

(حضرت صوفی سائیں عبدالغنی القادری کے کلام ”منتخب کلام” میں ملاحظہ فرمائیے)

٭٭٭