Hazrat Molana Hafiz Qari Shah Muhammad Ghulam Rasool Qadri

He is the founder of Khanqah-e-Qadria Ilmia, born in 1886, to Hafiz Qari Ilmuddin Qadri. It was under the supervision and in the madrassa of his father, he too became a Hafiz. He grew up to be a prominent scholar as well as a poet. He became a disciple of Shah Abdul Latif Muhajir Makki while he was in Medina. Hazrat died on Tuesday, 13 July 1971, and is buried in Qadri Masjid.

بانی قادری مسجد و خانقاہ قادریہ علمیہ

حضرت مولانا حافظ قاری الشاہ محمد غلام رسول القادری

(١٣٠٦ھ ـ ١٣٩١ ھ)

پیدائش :

حضرت مولانا، الحاج، الحافظ، القاری الشاہ محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ ١٣٠٦ھ مطابق ١٨٨٦ء میں کراچی صدر میں مسجد ”قصابان” سے ملحقہ مکان میں تولد ہوئے۔

آپ کی تعلیم و تربیت خود آپ کے والد ماجد کی زیرنگرانی انہی کے ”مدرستہ العلمیہ قادریہ” متصل مسجد قصابان صدر کراچی میں ہوئی۔ آپ نے علوم دینی کے ساتھ ساتھ تجوید حفظ و قرآ ن کی تکمیل کی۔

منازل سلوک کی تکمیل اور اکتساب علم کی خاطر آپ نے نہ صرف سارے ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی تمام بلاداسلامیہ کا سفر فرمایا۔

اوائل عمر ہی سے آپ کو دینی تعلیم کا ذوق اور فقر و درویشی سے شغف رہا۔ آپ نہ صرف مختلف زبانوں پر مہارت تامہ رکھتے تھے بلکہ ایک شعلہ بیان خطیب، بہترین نعت گو شاعر تھے۔ آپ کی تمام عمر مواعظ حسنہ اور تبلیغ و اشاعت دین میں گزری۔ آپ نے عہد جوانی میں فریئر اسٹریٹ صدر کراچی میں ”انجمن حزب الاحناف” کی بنیاد بھی رکھی۔آپ نے یہ انجمن ١٣٣٢ھ (مطابق ١٩١٣) میں قائم فرمائی تھی جس کے آپ صدر تھے۔

حضرت مولانا الشاہ محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ کی زندگی دین حق کی تبلیغ و اشاعت کیلئے وقف تھی۔

آپ کے تبلیغ دین کے ذرائع میں بڑے بڑے مذہبی تہوار مثلاً عید میلاد النبیۖ معراج النبیۖ، شب برات، شب ِ قدر، گیارہویں اور ہفتہ وار حلقہ ذِکر اﷲ شامل تھے۔ علاوہ ازیں آپ روزانہ بعد نماز عصر خصوصی طور پر حاضرین سے خطاب فرماتے تھے۔ روزانہ بعد نماز عصر کی خصوصی نشست میں کثیر تعداد میں آپ کے مریدین و معتقدین شرکت کرتے تھے۔ آپ اس محفل میں تلاوتِ کلام پاک کے بعد قرآن و حدیث کی روشنی میں مختلف موضوعات پر خطاب فرماتے تھے۔

محرم الحرام کی چاند رات سے عاشورہ تک آپ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے لیکر خلفائے راشدین و اہل بیت عظام خصوصاً امامین حسنین علیہم السلام کے شہادت کے واقعات بیان فرماتے تھے۔

ہر سال ماہ محرم کے اوّل عشرہ میں چاند رات سے یوم عاشورہ اور تیسرے روز اور چہلم پر واقعات کربلا و فضائل اہل بیت کا آغاز اہل سنت و الجماعت کے طرز اور عقائد کے تحت کراچی شہر میں آپ ہی کے خوانوادہ سے ہوا۔

حضرت مولانا الشاہ غلام رسول القادری علیہ الرحمہ نے ماہ محرم کے عشرہ یا دیگر مذہبی ایام پر منعقد کی جانے والی مجالس کے سلسلے میں ”قادری مسجد” یا شہر کراچی و بیرون شہر و بیرونِ ممالک میں کئے جانے والے خطابات کا کبھی کوئی معاوضہ طلب نہیں فرمایا۔

آپ اپنے عہد کے مشہور علمائے کرام اور صوفیائے عظام، اولیا و اقطاب کے فیض صحبت سے بہرہ ور ہوئے اور ان سے فیوض ظاہری و باطنی حاصل فرمائے جن علماء و مشائخ سے آپ نے ملاقات فرمائی ان میں چند خاص قابل ذِکر اسمائے گرامی یہ ہیں:

١ـ        اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ

٢ـ        مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مصطفی رضا خاں علیہ الرحمہ

٣ـ        حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ (گولڑہ شریف)

٤ـ        حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی علیہ الرحمہ

٥ـ        حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی القادری علیہ الرحمہ

٦ـ        حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی القادری میرٹھی علیہ الرحمہ

٧ـ        حضرت مولانا پیر سید قاسم مشوری علیہ الرحمہ (لاڑکانہ)

٨ـ        حضرت مولانا پیر سید حسن جان سرہندی علیہ الرحمہ

٩ـ        حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں علیہ الرحمہ

١٠ـ    حضرت مولانا سید سردار احمد خاں علیہ الرحمہ

١١ـ    حضرت علامہ سید محمد یوسف عزیز الملک سلیمانی علیہ الرحمہ

١٢ـ    حضرت بابا ولایت علی شاہ علیہ الرحمہ (ملیر کراچی)

١٣ـ    حضرت پیر خواجہ محمد فاروق رحمانی چشتی قادری علیہ الرحمہ

١٤ـ    حضرت علامہ سید عبدالرحمن الگیلانی نقیب الاشراف البغداد علیہ الرحمہ

١٥ـ    حضرت پیر سید محمود حسام الدین الگیلانی علیہ الرحمہ

١٦ـ    حضرت پیر سید عاصم الگیلانی علیہ الرحمہ

١٧ـ    حضرت پیر سید احمد شرف الدین الگیلانی علیہ الرحمہ

١٨ـ    حضرت پر سید طاہر علاؤ الدین الگیلانی علیہ الرحمہ

١٩ـ    حضرت پیر سید ظہور الحسن جیلانی فاضلی بٹالوی علیہ الرحمہ

٢٠ـ    حضرت مولانا نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ

٢١ـ    حضرت مولانا ہدایت رسول قادری علیہ الرحمہ

٢٢ـ    حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی القادری علیہ الرحمہ

٢٢ـ    حضرت مولانا فضل الرحمان مدنی مدظلہ العالی

حج بیت اﷲ کے سفر کے دوران آپ نے مشہور عالم و صوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالحق محدث الٰہ آبادی مہاجر مکی مدنی علیہ الرحمہ کی صحبت سے اکتساب فیض کیا۔

آپ نے جوانی میں روضہء نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم پر باب الرحمت میں حضرت مولانا شاہ عبداللطیف القادری مہاجر مدنی علیہ الرحمہ سے قادریہ چشتیہ سلسلہ میں بیعت فرمائی جو کہ ہندوستان سے ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ میں مقیم ہوئے تھے۔

حضرت مولانا غلام رسول القادری علیہ الرحمہ نے اپنے سلسلہ کی بنیاد بھی پانچ زریں اصولوں پر رکھی تھی یعنی :

(١)  ذِکر ودود     (٢) ذوقِ سجود    (٣) شوقِ درود   (٤) آئینِ جود    (٥) نورِ شہود

آپ کے مریدین لاکھوں کی تعدادمیں ہیں جن کا سلسلہ پاکستان کے علاوہ یورپ،مشرقِ وسطی ،سعودی عرب تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ کے دست حق پرست پر دو ہزار سے زائد غیرمسلم مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔

تحریک ِ پاکستان کے موقع پر حضرت مولانا شاہ محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ نے قیامِ پاکستان کے حوالہ سے بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں آپ نے ہم عصر مقتدر علماء و مشائخ کے ساتھ مل کر عوام میں دینی و روحانی شعور بیدار فرمایا اور دینی جلسوں کی صدارت فرماتے ہوئے تحریک پاکستان کو بھرپور تقویت فراہم کی۔

” ١٣/١٢ اکتوبر ١٩٤٦ میں ”سنی کانفرنس کراچی” آپ ہی کی صدارت میں منعقد کی گئی تھی جس میں پاکستان بنانے پر زور دیا گیا”۔

تحریک پاکستان کے سلسلہ میں ”آل انڈیا سنی کانفرنس” (مراد آباد) کی ایک شاخ ١٩٤٥ میں کراچی شہر میں ”جمعیة عالیہ سنّیہ” کے نام سے قائم ہوئی جس کی تشکیل مبلغ اسلام شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی قادری میرٹھی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست سے ہوئی۔ حضرت مولانا محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ ”جمعیة عالیہ سنّیہ” کے صدر منتخب ہوئے

حضرت مولانا محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ نے ١٩٢٣ء میں کراچی سے شائع ہونے والے اپنے ایک مجموعہ کلام ”بہار بے خزاں” کے صفحہ نمبر ١٩ پر ایک منظوم دعا ”فتح اسلام” کے عنوان سے تحریر فرمائی جس میں آپ نے مسلمانوں کی رہبری اور ہمت افزائی کیلئے چند مخصوص اوصاف کے حامل ایک شخصیت کے سامنے آنے کی دعا کی جس میں آپ نے لفظ ”قائداعظم” پہلی بار استعمال فرمایا ہے۔

مذکورہ نظم میں آپ نے ایک شعر میں پہلی بار لفظ ”قائداعظم” جس طرح سے استعمال فرمایا ہے ملاحظہ ہو:

”دغدغے مٹ جائیں سارے عالم شرار کے

قائداعظم کی قوت جب سر اظہار ہو”

١٩٤٣ء میں کراچی کے ”سندھ مدرسة الاسلام” کی تقریب میں جس کی صدارت قائداعظم محمدعلی جناح فرمارہے تھے حضرت مولانا شاہ محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ کو تلاوت کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ جلسہ میں راجہ صاحب محمود آباد بھی شریک تھے۔ آپ کی تلاوت شروع ہوتے ہی قائداعظم اپنی نشست سے اُٹھ کھڑے ہوئے جس کے ساتھ تمام حاضرین جلسہ بھی کھڑے ہوگئے۔

حضرت مولانا شاہ محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ نے مملکت ِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے استحکام اور بقا کیلئے متعدد دعائیہ اشعار تخلیق فرمائے تھے جنہیں آپ اکثر جمعہ کے خطبوں اور دینی تہواروں کے مواقع پر پڑھا کرتے تھے۔

حضرت مولانا محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ نے نقیب الاشراف حضرت سید عبدالرحمن آفندی قادری علیہ الرحمہ کے عہد نقابت میں بغداد شریف کی زیارت کی اور دورانِ قیام جامع غوثیہ اور بغداد شہر میں آپ کے متعدد جلسہ ہائے وعظ ہوئے۔

حضرت مولانا غلام رسول القادری علیہ الرحمہ نے قیامِ پاکستان سے قبل ١٩٢١ء میں کراچی کے علاقہ موجودہ سولجر بازار میں ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جس کا نام سلسلہ قادریہ سے نسبت اور الفت کی بنا پر ”قادری مسجد” رکھا۔ کراچی شہر میں اس نام کی یہ  پہلی مسجد تھی۔ اسی مسجد میں آپ نے امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دیئے اور سلسلہ قادریہ کی تعلیمات کے حوالے سے خانقاہی معمولات بھی انجام دیتے رہے۔

حضرت مولانا محمد غلام رسول القادری علیہ الرحمہ نے تصوف کے عظیم روحانی سلسلہ ء قادریہ کی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں خود کو وقف کررکھا تھا اور اس ضمن میں آپ نے تقاریر کے علاوہ اپنی تحریر کے ذریعے اکثر و بیشتر حضرت سیدنا شیخ عبدالقادری جیلانی رضی اﷲ عنہ اور ان کے سلسلہ قادریہ کی اہمیت و فضیلت کو عوام و خواص کے سامنے بھرپور انداز میں پیش فرمایا ہے۔

            فارسی زبان میں طویل ”مثنوی قادری” کے اشعار کے علاوہ آپ نے افغانستان کے سابق تاجدار ناد رشاہ شہید کی فقراء نوازی کی تعریف میں اٹھائیس اشعار پر مشتمل نظم ”ارمغانِ فقیر قادری بہ فقراء دربارِ نادری” کے عنوان سے تحریر فرمائی جو ملک کے جرائد میں شائع ہوئی اور افغانستان روانہ کی گئی۔ مذکورہ فارسی نظم ریاست رامپور سے شائع ہونے والے  ہفت روزہ جریدہ ”دبدبہء سکندری” کے مورخہ ١٧ فروری ١٩٣٣ کے شمارہ میں بھی شائع ہوئی۔  جبکہ ہزرائل ہائی نس الحاج سردار احمد شاہ خان وزیر دربار دولت افغانستان نے سفر حج کی واپسی پر قبلہ معظم کی اقتدا میں فریضہء جمعہ ادا فرمایا۔ آپ کے رفیق سفر علامہ سید سید المبشر طرازی نے بھی افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ ہزرائل ہائی نس سردار احمد شاہ خان باالقابہ نے اپنی مختلف ملاقاتوں میں حضرت مولانا غلام رسول قادری علیہ الرحمہ سے مختلف مسائل اور افغانستان کے علمی و مذہبی رجحانات پر تبادلہ ء افکار فرمایا اور قومی زبان کی ترویج، نظام خطبہ وغیرہ پر گفتگو کی۔ افغانستان پہنچ کر اعلیٰ حضرت نادر شاہ شہید تاجدارِ افغانستان سے آپ نے تذکرہ فرمایا اور اعلیٰ حضرت کی جانب سے بااعزاز خاص مراحم خسروانہ سے خلعت شاہانہ و کلاہ و لنگی و ملکی لٹریچر عنایت فرمایا گیا۔

تصانیف :

آپ نے تصانیف میں زیادہ تر نثر کی بجائے نظم کو ترجیح دی ہے اور آپ کی حیات مبارکہ میں متعدد مظوم رسائل شائع ہوئے ہیں چند تصنیفات کے نام درج ذیل ہیں:

١ـ        فیض علمی (سن اشاعت ١٣٣٣ھ ، اس کتا ب میں آپ نے اپنے والد ماجد کے حالات تحریر فرمائے ہیں)

٢ـ        گلدستہء غوثیہ

٣ـ        فیضانِ غوث اعظم

٤ـ        فیضانِ معینی (حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی شان میں مناقب)

٥ـ        افضالِ سرمدی و اجلالِ محمدی

٦ـ        گل یازدہ صد برگ

٧ـ        تحفہ عیدالضحیٰ

٨ـ        بہار بے خزاں

٩ـ        تحفہء زیارات ہدیہء ملاقات (اول دوم)

١٠ـ    مجموعہء فسانہء قوم

١١ـ    تحفہ رجبی شریف

١٢ـ    نذرِ حسینی  وغیرہ وغیرہ

وفات:

آپ کا وصال باکمال طویل علالت کے بعد اٹھارہ جمادی الاوّل ١٣٩١ھ مطابق ١٢ جولائی ١٩٧١ء بروز منگل تقریباً ساڑھے آٹھ بجے شب ہوا۔ بروز بدھ بعد نماز ظہر ہزاروں مریدین و معتقدین و علما و مشائخ کی موجودگی میں کراچی کے مشہور نشتر پارک کے میدان میں حضرت علامہ سید محمد یوسف عزیز الملک سلیمانی کی اقتداء میں آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ آپ کا مزار آپ کی قائم کردہ ”قادری مسجد” و خانقاہ قادریہ علمیہ سولجر بازار کراچی کے احاطہ میں مرجع خلائق ہے۔

(حضرت مولانا الشاہ محمد غلام رسول القادری کے کلام ”منتخب کلام” میں ملاحظہ فرمائیے)

٭٭٭